خواتین کے حقوق کا فروغ
متحدہ عرب امارات خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے مکمل طور پرپرعزم ہے اورخواتین کو بااختیار بنانے کو جدید اور ترقی پسند معاشرے کی ترقی کے لیے بنیاد سمجھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں خواتین شہری، معاشی اور سیاسی زندگی میں برابری کی بنیاد پر حصہ لیتی ہیں۔
1971 میں ایک فیڈریشن کے طور پر اپنے قیام کے بعد سے متحدہ عرب امارات نے شہریوں، مرد اور خواتین کو یکساں طور پر بااختیار بنانے كو نمایاں اہمیت دی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا آئین سب کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور انہیں قانونی حیثیت اور صحت، تعلیم اور روزگار تک رسائی کے استحقاق کی ضمانت دیتا ہے۔
28 اگست 2015 کو جنرل ویمن یونین کے آغاز کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر متحدہ عرب امارات نے اپنا پہلا اماراتی یوم خواتین منعقد کیا جو معاشرے میں خواتین کے کردار کا قومی جشن تھا۔
صنفی مساوات متحدہ عرب امارات کے وژن 2021 کے قومی ایجنڈے کا بھی حصہ ہے جس کا مقصد خواتین کو کام اور معاشرے میں ہر قسم کے امتیازی سلوک سے محفوظ رکھنا اور اماراتی خواتین کو ہر شعبے میں بااختیار بنانا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں 2015-2021 کے لئے اماراتی خواتین کو بااختیار بنانے کی قومی حکمت عملی کا آغاز جنرل ویمن یونین (جی ڈبلیو یو) کی چیئر وومن اور سپریم کونسل فار مدرہوڈ اینڈ چائلڈ ہوڈ کی صدر اور فیملی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (ایف ڈی ایف) کی سپریم چیئر وومن جناب شیخہ فاطمہ بنت مبارک نے 8 مارچ 2015 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیا تھا۔ یہ حکمت عملی سرکاری، نجی شعبے اورسول سوسائٹی کی تنظیموں مین خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبے میں متحدہ عرب امارات کو جدید ترین ممالک میں شامل کرنے کے منصوبوں کا مسودہ تیار کرنے کا فریم ورک فراہم کرتی ہے۔
اکتوبر 2019 میں ہونے والے فیڈرل نیشنل کونسل کے انتخابات میں 555 درخواست دہندگان میں سے 200 خواتین نے بطور امیدوار درخواست دائر کی تھی جو مجموعی طور پر تقریبا 36 فیصد ہے۔ فیڈرل نیشنل کونسل میں منتخب ہونے والے بیس نئے ارکان میں سے سات خواتین جیتییں جس سے متحدہ عرب امارات دنیا کے پہلے ملک بن گیا جہاں خواتین اركان پارلیمنٹ (ایف این سی) کے تعداد نصف ارکان ہیں۔ خواتین قومی اور بین الاقوامی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ جڑے اہم قلمدانوں میں شامل ہیں مثلا بین الاقوامی تعاون، سماجی ترقی، عوامی تعلیم اور نوجوان۔
متحدہ عرب امارات کی کابینہ نے عدالتی شعبے، بین الاقوامی مشنز اورامن کارروائیوں میں خواتین کی شرکت کو فروغ دینے کے لئے متعدد پالیسیاں بھی اپنائی ہیں۔
متحدہ عرب امارات اپنی سفارتی شعبے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات کی قیادت بھی کرتا ہے۔ اکتوبر 2019 تک متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے 49.5 فیصد ملازمین خواتین تھیں جن میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے مشن نیدرلینڈز، جرمنی، فن لینڈ اور ڈنمارک جیسے بڑے سفارت خانوں میں اعل عہدیدار خواتین سفیر تعینات كئے۔ ایمریٹس ڈپلومیٹک اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں خواتین کی تعداد تقریبا ٦٠ فیصد ہے۔
وفاقی حکومت نے جہاں ہر سطح پرخواتین کو بااختیار بنانے کے عزم کا مظاہرہ کیا ہے وہیں متحدہ عرب امارات میں نجی شعبے نے بھی اسی طرح خواتین کی نمائندگی کی اہمیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
دسمبر 2012 میں متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ایک فیصلہ جاری کیا جس کے تحت وفاقی اداروں، نجی کمپنیوں اور اداروں کے بورڈآف ڈائریکٹرز میں اماراتی خواتین کی موجودگی لازمی قراردی گئی تھی۔ مئی 2015 میں حکومت نے متحدہ عرب امارات کی صنفی توازن کونسل قائم کی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اماراتی خواتین ملک کی ترقی میں قائدانہ کردارادا کرتی رہیں۔ کونسل کام کی جگہ پرصنفی توازن کے حصول کے لئے قانون سازی، پالیسیوں اور پروگراموں کا جائزہ لینے سمیت متعدد کام انجام دیتی ہے۔
متحدہ عرب امارات افرادی قوت میں خواتین کی شراکت بڑھانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے ، خواتین کے ساتھ عوامی شعبے کی 66 فیصد ملازمتیں ہیں ، بشمول دنیا کے اعلیٰ عہدے ، فیصلہ سازی میں 30 فیصد سینئر قیادت ، اور تعلیم اور صحت میں 75 فیصد۔
اقوام متحدہ كے ادارہ برائے خواتین کی حمایت
متحدہ عرب امارات دیگر ممالک اور اقوام متحدہ كیساتھ شراکت داری کے ذریعے ہر جگہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات کو 2013-2015 اور 2016-2018 تک دو مدتوں کے لئے صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کے ایگزیکٹو بورڈ میں خدمات انجام دینے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے 2010 میں اپنے قیام کے بعد سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین كی بھرپور معاونت کی ہے اور ابوظہبی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین كے رابطہ دفتر سمیت صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے فروغ کی کوششوں کی حمایت کے لئے اپنے بنیادی بجٹ سے تقریبا 26 ملین امریکی ڈالر فراہم کیے ہیں۔ یہ دفتر خواتین کی شرکت اورخواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ساتھ شراکت داری کو مستحکم کرتا ہے۔
تعلیم کے لئے ہر لڑکی کے مساوی حق کو فروغ دینا
تعلیم خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کی کلید ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی 2014 کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات بنیادی طور پر تعلیمی حصول میں مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات تک پہنچ گیا۔ 77 فیصد اماراتی خواتین سیکنڈری اسکول کے بعد اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لے رہی ہیں اور متحدہ عرب امارات میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والوں کا 70 فیصد ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کے دوران ہر لڑکی كیلئے تعلیم کے حق کے مساوی طور پر فراہمی کو فروغ دیا۔ جون 2017 ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جنیوا میں کونسل کے 35 ویں اجلاس کے دوران متحدہ عرب امارات کی جانب سے لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق سے متعلق پیش کردہ قرارداد کا مسودہ متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ قرارداد میں ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو ختم کریں جن میں امتیازی پالیسیاں، غربت، روایت، مذہبی خیالات یا مالی مشکلات شامل ہیں۔ اس نے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے جنسی تشدد اور دھمکیوں کے خلاف اسکول کے احاطہ سے باہر لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے اضافی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
متحدہ عرب امارات نے جون 2014 میں انسانی حقوق کونسل میں 75 ممالک کے مشترکہ بیان کا آغاز بھی کیا تھا جس میں لڑکیوں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی کیونکہ وہ اسکول جاتی ہیں یا اسکول جانا چاہتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے ستمبر 2014 میں کونسل کی جانب سے جون 2015 میں کونسل کے اجلاس میں پینل ڈسکشن بلانے کی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا تاکہ ہر لڑکی کیلئے تعلیم کے حق کو پورا کرنے کے بارے میں سیکھے گئے اسباق اور بہترین طریقوں کا اشتراک کیا جاسکے۔