ثقافتی اور عوامی سفارت کاری:
آج کی دنیا میں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی نے خیالات کے بے مثال تبادلے کو ممکن بنایا ہے جس سے بین الثقافتی محادثے اور تعلیم کے فروغ كیساتھ ساتھ استحکام اور امن کے لئے نقصان دہ معلومات کی ترسیل کی بے پناہ صلاحیت بھے پیدا ہوئی ہے۔ ثقافتی اور عوامی سفارت کاری میں قوموں اور لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کے مقصد کے لئے خیالات، فن اور زبان کے تبادلے شامل ہیں لیکن اس تک محدود نہیں ہے۔ ثقافتی اور عوامی سفارت کاری بہتر باہمی احترام، بین الاقوامی اشتراک اور عالمی خوشحالی کی خدمت میں مکالمے، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کی مدد کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات كو اسكے بانی مرحوم شیخ زاید کی رواداری اور امن اور استحکام کی بنیادی اقدار پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ان کی رہنما حکمت عملی یہ تھی کہ تمام ثقافتوں اور عوام کے ساتھ دوستی کا اظہار کیا جائے، اعتدال پسند اسلام کو فروغ دیا جائے اور تمام ممالک کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعاون کے لئے کام کیا جائے۔
آج شیخ زاید کا تاریخی وژن ایک پھلتی پھولتی اور روادار قوم سے جھلكتا ہے جو 200 سے زائد قومیتوں کی میزبانی کرتی ہے، 93 فیصد شرح خواندگی پر فخر کرتی ہے، سالانہ 15 ملین سے زائد سیاحوں کا خیرمقدم کرتی ہے اور اسے اس بات پر فخر ہے کہ اس کے تمام یونیورسٹی گریجویٹس میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے جامع امدادی اور ترقیاتی پروگراموں كے ذریعے گزشتہ چھ سالوں میں ملکی جی این پی کے بنسبت عالمی درجہ بندی میں سرفہرست عطیہ دہندن کے طور پر آگے ہے۔ وہ متنوع مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے ١٤٧ سے زیادہ ممالک کی خدمت کرتے ہیں اور کسی بھی سیاسی تعصب سے آزاد ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں 40 سے زائد گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور ثقافت کے متعدد عالمی معیار کے مراکز مثلا سوربون ابوظہبی، نیویارک یونیورسٹی ابوظہبی اور لوور میوزیم ابوظہبی اور یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ درحقیقت، شیخ زاید کی طرف سے رواداری، مذہبی آزادی اور باہمی احترام کی اقدار متحدہ عرب امارات کے ڈی این اے میں شامل ہیں۔
2020 میں متحدہ عرب امارات نے گلوبل سافٹ پاور انڈیکس میں خطے میں پہلے اور بین الاقوامی سطح پر 18 ویں نمبر پر رہا۔ یہ متحدہ عرب امارات میں آنے والے تمام شہریوں، رہائشیوں اور زائرین کے لئے مواقع، اختراع، ترقی اور رواداری کے ماحول کو یقینی بنانے اور عالمی برادری کے ساتھ احترام، باہمی فائدہ مند اور پرامن تعلقات کو یقینی بنانے کے لئے قوم کے جاری عزم کا ثبوت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ تمام ممالک عالمی چیلنجوں سے کامیابی سے نمٹنے کے لئے اعتماد اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لئے مل کر کام کریں۔ ثقافتی اور عوامی سفارت کاری قوموں کے درمیان تقسیم اور عدم اعتماد کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے اور عالمی برادری کو ماحولیاتی تبدیلی، انتہا پسندی، صنفی مساوات اور تعلیم جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم كرتی ہے۔
2018 میں وزیر مملکت عزت مآب ڈاکٹر ذکی نسیبہ کی قیادت میں ابوظہبی میں وزارت خارجہ (ایم او ایف اے) میں عوامی اور ثقافتی سفارت کاری کے انچارج معاون وزیر برائے ثقافتی امور کا دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نسیبہ اس مشن کی قیادت کرنے کے لئے بہترین انتخاب ہیں۔ وہ شیخ زاید کے سابق مترجم اور مشیر ہیں اور انہوں نے ثقافتی سفارت کاری پر شیخ کی دور اندیش گرفت کا مشاہدہ کیا۔
2019 میں فرانس اور روس میں سابق سفیر عزت مآب عمر سیف غباش کو ثقافتی امور کا معاون وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ اسسٹنٹ منسٹر آفس فار کلچرل افیئرز نے متحدہ عرب امارات کے مشنز کو بین الاقوامی سطح پر ان کی ثقافتی اور عوامی سفارت کاری تک رسائی میں مدد دینے، متحدہ عرب امارات کی حکومت کے سافٹ پاور ایجنڈے کو تقویت دینے اور بین الاقوامی تعاون کی حمایت کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سفارت کار جدت طرازی، رواداری اور رفاہی كاموں کی اقدار پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ثقافتی سفارت کاری کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔
وزیر مملکت جناب ذکی نسبیہ كہتی ہیں "گزشتہ نصف صدی کے دوران ہمارے ملک کی واضح تبدیلیوں کے باوجود ہماری ثقافت ہمیشہ کی طرح ایک ہی اقدار میں جڑی ہوئی ہے: خواتین کو بااختیار بنانے کا عزم، اپنے عوام کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کرنا، تارکین وطن اور زائرین کے لئے ایک کھلا، معاشی طور پر پرکشش اور ثقافتی طور پر بھرپور ماحول فراہم کرنا، مستقل اختراع، اور ادنیٰ کے لئے ہمدردی کرنا۔ دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کو برداشت کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ احترام ۔ کیونکہ ایک ایسی دنیا میں جس میں بہت سے لوگ دروازے بند کر رہے ہیں، متحدہ عرب امارات کے قومی مفاد اور ہمارے قومی کردار میں ہے کہ وہ انہیں کھلا دیکھتے رہیں"۔
مزید معلومات کے لیے براہ کرم https://opcd.ae/ ملاحظہ کریں